Rs.400.00Rs.600.00

کتاب کا نام: غلامی اور نسل پرستیمصنف: ڈاکٹر مبارک علیقیمت: 600قدیم زمانے میں جنگی قیدیوں کو غلام بنا لیا کرتے تھے اس لئے یونانی ، رومی اور مسلمانوں میں غلامی کا رواج تھا اور اُس...

  • Book Name: Ghulami Aur Nasal Parasti
  • Author Name Dr. Mubarak Ali
  • No. of Pages 112
  • URD- Urdu 2025 / 01 / 18

Guaranteed safe checkout

amazon paymentsapple paybitcoingoogle paypaypalvisa
کتاب کا نام: غلامی اور نسل پرستی
مصنف: ڈاکٹر مبارک علی
قیمت: 600
قدیم زمانے میں جنگی قیدیوں کو غلام بنا لیا کرتے تھے اس لئے یونانی ، رومی اور مسلمانوں میں غلامی کا رواج تھا اور اُس کو اخلاقی طور پر جائز بھی سمجھا جاتا تھا لیکن امریکہ میں غلامی کی ایک اور ہی شکل پیدا ہوئ کیونکہ جو یورپی آبادکار یہاں آئے اُنھوں نے ریڈ انڈینز کی زمینوں پر قبضہ کیا تا کہ وہاں کاشت کاری کر سکیں اس کے لئے اُنھیں بڑی تعداد میں غلاموں کی ضرورت
تھی لہذا یہ غلام افریقہ سے لائے گئے اور یہ ایک انتہائی منافع بخش کاروبار ہو گیا۔
افریقی غلاموں کو جہازوں میں بھر کر لایا جاتا تھا اور جب یہ امریکہ میں کسی بندرگاہ میں پہنچتے تھے تو ان کی گردنوں میں لوہے کے پٹے ڈال دیے جاتے تھے۔ پیروں میں زنجیریں ہوتیں تھیں۔ بندرگاہ سے قریبی شہر تک انھیں پیدل چلا کر لے جایا جاتا تھا۔ شہروں میں غلاموں کی منڈیاں ہوتی تھیں جہاں بڑے کھیتوں کے مالک انھیں خریدنے کے لئے آتے تھے۔ خرید کے وقت بیٹی کو ماں سے، بیٹے کو باپ سے اور شوہر کو بیوی سے جدا کر دیا جاتا تھا۔ اس کے بعد یہ خریدار کی ملکیت ہو جاتے تھے۔ وہ انھیں جنوب کی ریاستوں میں لے جاتے تھے۔ جہاں کاٹن، تمباکو اور گنے کی کاشت ہوتی تھی۔ یہاں یہ صبح سے شام تک کھیتوں میں کام کرتے تھے اور ان کے آرام کا کوئی وقت نہیں ہوتا تھا۔ برطانیہ میں کاٹن کی مانگ بڑھ گئی تھی کیونکہ لیور پول اور مانچسٹر میں کپڑے کی ملیں کپڑا تیار کر کے یورپ اور ایشیا کی منڈیوں میں
فروخت کر رہے تھے۔
چونکہ غلاموں کے ساتھ بے حد ظلم کیا جاتا تھا۔ انہیں اذیتیں دیں جاتی تھیں۔ لوہے کا پٹہ ان کی گردن میں ہوتا
تھا جس پر مالک کا نام درج ہوتا تھا۔ کاٹن کے کھیت میں پھول چننے کے لیے ایک خاص کوٹہ ہوتا تھا۔ اگر وہ پورا نہ ہوتا تو انھیں سزا دی جاتی تھی۔ ان کو سزا دیتے وقت سفید فام مالک کے دل میں کوئی رحم نہیں آتا تھا۔ افریقی غلاموں کے بارے میں خیال یہ تھا کہ ان کی نہ تو کوئی روح ہوتی ہے اور نہ ہی ان میں جذبات اور احساسات ہوتے ہیں۔ اس رویے نے سفید فام لوگوں میں نسلی برتری کو پیدا کیا تاکہ وہ افریقیوں پر اپنا تسلط قائم کرسکیں۔
اگرچہ افریقیوں کو عیسائی تو بنا لیا گیا مگر اس کے باوجود انھیں کمتر ہی سمجھا گیا اور چرچ میں بھی عبادت کے وقت یہ سفید فاموں سے علیحدہ رہتے تھے۔ امریکہ میں افریقی غلاموں نے جس نفرت اور تعصب کو برداشت کیا ہے اُس کی مثال تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔
موجودہ دور میں امریکی افریقی اپنی یاداشتیں لکھ رہے ہیں جن سے سفید فام لوگوں کے رویوں اور رجحانات کا اندازہ ہوتا ہے اور ساتھ ہی میں افریقی اپنے دُکھ بھی اور تعصبات کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ یہ امریکی تاریخ کا ایک دردناک باب ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی
2 ستمبر 2024ء ، لاہور
Translation missing: en.general.search.loading