کتاب کا نام: کہانی چل رہی ہے۔
مصنف: شہزاد نیّر
شہزاد نیّر کے مائیکرو فکشن پر مشتمل کتاب کا عنوان :’’ کہانی چل رہی ہے‘‘ معنی کی کئی طرفیں رکھتا ہے۔ اس کا ایک معنی تو اس عنوان سے لکھی گئی کہانی میں مضمر ہے؛یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو غربت کے خلاف جنگ میں ، جسم فروشی کو ہتھیا ر بناتی ہے۔کوئی اس کی کہانی سنتا ہے ،کوئی نہیں۔اس کی اور طوائف کے ادارے کی کہانی صدیوں سے چل رہی ہے۔ کتاب کے عنوان کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ خود کہانی رواں دواں ہے۔ کہانی ،آدمی کے ساتھ ہے۔ کہانی ،دنیا سے متعلق آدمی کے ادراک کا ناگزیر حصہ ہے۔ آدمی ہے تو اس کی زبانی اس کی اور دنیا کی کہانی بھی چل رہی ہے۔جس مختصر کہانی کو مائیکروفکشن کا نام دیا گیا ہے،خود یہ بھی صدیوں سے چل رہی ہے۔قدیم حکایات ، اخلاقی قصوں، تمثیلوں سے لے کر بیسویں صدی کے بڑے لکھنے والوں: کافکا، چیخوف، ہمینگوے،بریخت،بورخیس، اتالو کاوینو، منٹو، نجیب محفوظ اور ہمارے زمانے میں لیڈیا ڈیوس تک نے مختصر کہانیاں لکھی ہیں۔تاہم آج کے مائیکروفکشن اور ان مصنفین کی مختصر کہانیوں میں ایک فرق بہ ہر حال ہے۔یہ مصنفین وقتاًفوقتاً ، اپنے تخلیقی عمل کی ضرورت کی رو سے، مختصر کہانیاں لکھا کرتے تھے، جب کہ مائیکروفکشن ایک نئی صنفِ ادب کے واضح شعور کے تحت لکھا جاتا ہے۔منٹو نے فسادات جیسے بڑے موضوع کو باقاعدہ افسانوں کے علاوہ ’’سیاہ حاشیے ‘‘ کی مختصرترین کہانیوں (جن میں سے کچھ تو یک سطری ودو سطری بھی ہیں ) میں سمونے کی کوشش کی۔ شہزاد نیّر کی یہ کہانیاں پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے سامنے مائیکروفکشن کی عالمی روایت کے علاوہ ،منٹو کی’’ سیاہ حاشیے ‘‘بہ طور خاص رہی ہے۔
شہزاد نیّرمعاصر اردو نظم کے ممتاز شاعر ہیں۔ ہمارے زمانے کے کچھ اور ممتاز شاعر بھی فکشن کی طرف آئے ہیں، مگر انھوں نے زیادہ تر ناول کو اختیار کیا ہے، جب کہ شہزاد نیّر نے مائیکروفکشن کو۔یہ کہنا تو سادہ لوحی ہوگی کہ لوگ مائیکروفکشن اس لیے لکھ اور پڑھ رہے ہیں کہ فرصت کم ہےاور سوشل میڈیا کے اثر سے توجہ کا دورانیہ مختصر ہوگیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو سیکڑوں صفحات کے ناول چھپ رہے ہوتے نہ پڑھے جارہے ہوتے۔ اس زمانے کی مقبول ترین صنف ناول ہی ہے۔ قصہ یہ ہے کہ کچھ کہانیاں مائیکروفکشن ہی کی ہیئت میں لکھی جاسکتی ہیں۔ ایسی کہانیاں ، جن میں واحد تاثر کی شدت ہو اور وہ ایک انکشاف کی مانند کہانی کے آخر میں پھٹ پڑے۔وہ قاری کو ہنسادے، رلادے، اسے اندر سے سخت مضطرب کردے یا اس کی آ نکھوں پر بندھی کسی پٹی کو کھول دے۔ایسی کہانیوں میں کوئی ایک لفظ زائد ہوتا ہے نہ کم۔ شہزاد نیّر نے یہی کہانیاں لکھی ہیں۔ان کی کہانیوں میں کوئی ایک نکتہ غیر معمولی شدت ِ احساس کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ وہ فکشن کی زبان، واقعات ، کرداروں کی خصوصیات اور پلاٹ کی ترتیب کو کہانی کے مرکزی نکتے سے مکمل طور پر وابستہ رکھتے ہیں۔
شدت پسندی ، ان کہانیوں کا سب سے اہم موضوع ہے۔ اس شدت پسندی کا نشانہ فنو ن ، تعلیم ، دوسرے مذہب و مسلک کے لوگ اور عام لوگ یعنی سب ہی ہیں۔ کس طرح چند لوگوں اور ان کے نظریے نے پورے سماج کو یرغمال بنایا ہوا ہے،اس نازک اور مشکل موضوع کو ان کہانیوں میں باربار چھیڑا گیا ہے۔ ان چند لوگوں کے مقابلے میں اکثریت کس طرح خوف زدہ ، بےبس اور غافل ہے،اس پر طنز ان کہانیوں میں جابجا ملے گا۔اس ضمن میں ’’دوہزار بندے، اینٹ اور مسجد،بہادر شمشیر زن،غیرت ایمانی،’’تقویٰ‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ کرداروں کے تضادات، نفس پروری، ریاکاری،خود غرضی بھی ان کہانیوں کے اہم موضوعات ہیں۔ ان موضوعات پر لکھتے ہوئے، ان کے قلم میں کاٹ پیدا ہوجاتی ہے،منٹو کی مانند۔قاری کے ذہن وتخیل میں اس کاٹ کا اثر دیر تک رہتا ہے۔
شہزاد نیّر نے مائیکروفکشن لکھتے ہوئے کہانی کے قدیمی طلسم : تجسس و دل چسپی کو برقرار رکھاہے۔ یہ کہانیاں پڑھتے ہوئے، آپ کہیں رکتے نہیں ہیں۔ کہانی چلتی ہے تو آپ بھی اس کے ساتھ چلتے ہیں۔ دورتک۔تضادات سے بھر پور اس سماج کے اندر دورتک ۔
Frequently Bought Together
BUY MORE TO SAVE MORE
Dr Justice Naseem Hassan Shah
No reviews
Kuch Yadein Aur Tasurat - کچھ یادیں اور تاثرات
Rs.600.00Rs.800.00
Alfred Guillaume and Thomas Walker Arnold
No reviews
Miraas e Islam - میراث اسلام
Rs.800.00Rs.1,000.00
Custom Collections
Latest collection of Books on Urdu Novels, stories, poetry, essays, literature, Islamic, etc.