غیرسامی مذاہب کے بانی از الطاف جاوید
اس وقت دنیا میں بے شمار آسمانی و غیر آسمانی مذاہب پائے جاتے ہیں،جن کی اپنی اپنی تہذیب وثقافت اور زندگی گزارنے کی لئے تعلیمات ہیں ہمارے معاشرے میں چونکہ مطالعہ کا رجحان بہت کم ہو چکا ہے لہذا مذاہب کی تاریخ اور ارتقاء سے متعلق بہت کم لوگ معلومات رکھتے ہیں۔اس وقت دنیا میں دو قسم کے مذاہب ہیں۔ ایک سامی مذاہب جنہیں الہامی مذاہب بھی کہتے ہیں۔سامی مذاہب سے مراد وہ مذاہب ہیں جو سام بن نوح کی اولادسے نکلے ہوں۔ انہیں الہامی مذاہب بھی کہتے ہیں۔ انہیں الہامی مذاہب کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان تینوں مذاہب کی بنیاد الہام الہٰی یا وحی الہٰی پر ہے۔ یہودیت، مسیحیت اور اسلام اہم بڑے سامی مذاہب ہیں اور دوسرے غیر سامی مذاہب ہیں۔
غیر سامی مذاہب میں بدھ مت، ہندومت اور زرتشت مت اور سکھ مت، تاوازم، کنفویشس ازم وغیرہ شامل ہیں۔غیر سامی مذاہب سے مراد وہ مذاہب ہیں جن کا تعلق سام بن نوح کی اولاد سے نہیں ہے غیر الہامی مذاہب کو منگولی اور آریائی مذاہب بھی کہا جاتا ہے دنیا میں موجود ہر شخص کسی نہ کسی مذہب سے متاثر چلا آرہا ہے چاہے وہ سامی مذاہب ہوں یا غیر سامی مذاہب چونکہ مذہب زندگی کے ہر معاملے میں انسان کی مکمل رہنمائی کرتا ہے اس لئے اس کے وجود سے کبھی انکار نہیں کیا جا سکا۔مذہب كے آغاز كے بارے میں دو بڑے نظریئے پائے جاتے ہیں۔ ارتقائی نظریہ اور الہامی نظریہ۔ڈارون كے نظریہِ ارتقاء سے متاثر ہوكر مغربی محققین اور مستشرقین كی اكثریت نے مذہب كا ارتقائی نظریہ پیش كیا ہے۔ جدید ماہرین كو چونكہ ہر چیز میں ارتقاء كی كارفرمائی نظر آتی ہے لہٰذا انہوں نے مذہب کے متعلق بھی ایسے ہی اندازے لگانے شروع کیے ۔مذہب كے ارتقائی نظریہ كی رو سے انسان كی ابتداء جہالت اور گمراہی سے ہوئی۔ بعدازیں اس نے بتدریج مشركانہ خدا پرستی اپنالی۔ ان ارتقائی مراحل كی تفصیل میں كافی اختلاف ہے۔ مثلاً: بعض محققین كا خیال ہے كہ مذہب كی ابتداء اكابر پرستی سے ہوئی جبكہ دوسروں كی رائے میں ابتداء مظاہر پرستی سے ہوئی۔ ان كا خیال ہے كہ انسان نے ابتداء میں اپنی كم فہمی اور لاعلمی كی وجہ سے مظاہرِ فطرت كی پرستش شروع كردی۔ كیونكہ ابتدا میں اس كی زندگی و موت كا انحصار كافی حد تك ان پر تھا۔ مثلاً: سیلاب، طوفان، زلزلے اور آتش فشاں وغیرہ، لیكن جوں جوں اس كا علم بڑھتا گیا اور جہالت دور ہوتی گئی تو اس نے محسوس كیا كہ یہ مظاہرِ فطرت خدائی قوتیں نہیں ركھتے۔ ابتدا میں لوگوں نے ہر چیز كو دیوتا بنالیا لیكن علمی ترقی كے ساتھ ساتھ خداؤں كی تعداد میں كمی ہونے لگی حتٰی كہ آخر میں صرف ایك خدا رہ گیا۔جولین بكسلے پہلا مغربی مفكر ہے جس نے ڈارون كے نظریہِ ارتقاء كو مذاہب كی تاریخ پر چسپاں كیا۔ وہ لكھتا ھے’’پہلے جادو پیدا ہوا، پھر روحانی تصرفات نے اس كی جگہ لے لی۔ پھر دیوتاؤں كا عقیدہ اُبھرا، بعد ازیں خدا كا تصور آیا۔ اس طرح ارتقائی مراحل سے گزر كر مذہب اپنی آخری حد كو پہنچ چكا ہے۔‘‘
جب کہ مذہب كا الہامی نظریہ ہے كہ اللہ تعالیٰ نے انسانِ اوّل حضرت آدم علیہ الّسلام كو جب دنیا میں بھیجا تو اوّل روز سے ہی ان كی تمام مادی ضروریات كی طرح ان كی روحانی ضروریات یعنی دینی ہدایت كا بھی سامان كیا۔اس طرح انسانِ اوّل پوری طرح ہدایت یافتہ تھا۔ وہ نہ صرف توحید پرست تھا بلكہ توحیدِ الٰہی كا پیغامبر تھا،انسانیت كو صراطِ مستقیم اور توحیدِ خالص سكھانے كے لیے وقفے وقفے سے ہر زمانے اور ہر قوم كی طرف رسول بھیجے گئے۔۔مختصر یہ کہ ابتدائے آفرینش سے انسان كا اصلی مذہب توحید رہا ہے۔ شرك اس وقت پیدا ہوا جب انسانی آبادی میں اضافہ اور پھیلاؤ ہوا اور انبیاء كی تعلیم دھندلی پڑگئی۔ آج بھی غیر الہامی اور مشرک مذاہب ہندو مت، جین مت، زرتشتی اور سكھ مت، بدھ مت اور افریقہ کے پرانے مذاہب وغیرہ میں الہامی تعلیمات کی ہلکی پھلکی جھلک دیکھی جاسکتی ہیں ۔اس وقت موجود الہامی مذاہب عیسائیت، یہودیت اور اسلام ہیں، ان كے داعی اللہ تعالیٰ كے رسول اور پیغمبر تھے۔ ان كی تعلیمات جزوی فرق سے خالص توحید پر مبنی تھیں، لیکن بعد میں عیسائیت اور یہودیت كے پیروكاروں نے اپنے مذاہب میں من مانی ترامیم اور تحریفات كرلیں
الہامی مذاہب اصلاً ایك خدا كے تصور پر مبنی ہیں، یہ مذاہب پیغمبروں كے قائل ہیں، مذاہب كا اصل منبع و سرچشمہ سماوی ہیں، مشرقِ وسطٰی سامی اقوام سے ابتدا ہوئی اور اپنی تعلیمات کی تبلیغ کے باعث باہر بھی پھیلے ۔غیر الہامی مذاہب ایک تصور خدا كے پابند نہیں، بعض سرے سے خدا كے تصور سے بھی عاری ہیں، تعلیمات کا سرچشمہ سماوی نہیں رہا، ا ن میں پیغمبروں کا تصور ختم ہوچکا ہے ، ان کا علاقہ وہ ہے جہاں بعد میں سامی مذاہب کی تبلیغ نہیں ہوسکی ۔تعلیمات کے لحاظ سے بھی ان میں فرق ہے ، الہامی مذاہب اپنی تعلیمات یا عملی تاریخ كے باعث تبلیغی ہیں اور غیر الہامی اپنی اصلی تعلیمات كے مطابق تبلیغی نہیں۔ اس طرح الہامی مذاہب كی تعلیمات معیّن اور واضح ہیں لیكن غیر الہامی مذاہب كی تعلیمات غیرمعیّن اور لچكدار ہیں۔ مزید الہامی مذاہب كی تعلیمات كلّی ہیں اور اپنی اصل كی بنا پر دینی اور دنیوی زندگی پر كم و بیش حاوی ہیں، لیكن غیر الہامی مذاہب كی تعلیمات جزوی ہیں یعنی یا تو صرف روحانی زندگی سے متعلق ہیں جیسے تاؤ مت یا پھر دنیوی زندگی سے متعلق ہیں جیسے كنفیوشسی مت۔
زیر تبصرہ کتاب’’ غیرسامی مذاہب کے بانی" جناب الطاف جاوید کی تصنیف ہے اس کتاب میں انہوں نے غیر سامی مذاہب میں آریہ اور زرد اقوام وغیرہ میں جو بانیان مذاہب ہوئے ان کے حالات اور تعلیم کے متعلق معلومات سپرد قلم کی ہیں ۔یعنی اس کتا ب میں چندر کرشن، گوتم بدھ ، مہاویر ، آخن آتوں ، زرتشت ، کنفیوشس، اور سقراط کی اصل الہامی تعلیمات کے متعلق تحقیقی انکشافات پیش کیے گئے ہیں
Frequently Bought Together
BUY MORE TO SAVE MORE
Custom Collections
Latest collection of Books on Urdu Novels, stories, poetry, essays, literature, Islamic, etc.