مولانا ظفر علی خان ہماری قومی تاریخ کے ایک اہم رہنما، صحافی، سیاستدان اور شاعر ہیں۔ وہ ایک عہد ساز اور تاریخ کا دھارا بدلنے والے فرد تھے۔ وہ مسلمانوں کی سربلندی اور سرافزازی چاہتے تھے اور اسی لئے انہوں نے محاورتاً نہیں ا صلاً اپنا تن من دھن قربان کیا۔ انہوں نے سیاست ہی نہیں، صحافت اور شعر و ادب میں بھی نئی راہیں نکالیں اور انہیں جوش، جذبہ اور والہانہ پن عطا کیا۔
مولانا ظفر علی خان کو خراج عقیدت پیش کرنا آسان کام نہیں۔ قومی سطح پر ان کی خدمات کا ویسا اعتراف نہیں کیا گیا جیسا کہ ان کا حق تھا۔اس کمی کو پورا کرنے کیلئے ان کے نام پر قائم کیا گیا ادارہ مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ(اب فائونڈیشن) اپنے آغاز سے ہی مولانا کی خدمات کے اعتراف اور ان کی تخلیقات کی حفاظت کے لئے کوشاں ہے۔ اس سلسلے میں اس ادارے کی جانب سے اب تک مولانا کے متعدد نثری اور شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ مولانا ظفر علی خاں فائونڈیشن نے اپنی خدمات کا دائرہ وسیع کرنے کے لئے پنجاب یونیورسٹی کے ادارہ تالیف و ترجمہ کے ساتھ تعاون کے ذریعے اس سلسلے کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا جوبڑے خلوص کے ساتھ گزشتہ چالیس برس سے مولانا ظفر علی خان کی خدمات کے اعتراف اور ان کے قلمی آثار کے تحفظ کیلئے کوشاں ہیں۔ اس موضوع پر ان کی متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ اب ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے اپنے شاگرد حافظ محمد سعد عبداللہ کے ساتھ مل کر ایک ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جس پر مولانا ظفر علی خان کے مداح انہیں ہمیشہ خراج تحسین پیش کرتے رہیں گے۔
مولانا ظفر علی خان کا کلام ان کے متعدد مجموعوں میں بکھرا ہوا ہے ان کے اشعار زبان زدِ عام ہیں۔ ان کی اور علامہ اقبالؒ کی فکر کے اشتراک کی وجہ سے اکثر لوگ ان کے اشعار کو اقبالؒ یا دوسرے شعرا سے منسوب کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر اور حافظ محمد سعد عبداللہ کے اس کام سے یہ معلوم ہو جائے گا کہ کون سا شعر مولانا ظفر علی خان کا ہے اور کون سا نہیں۔ اگر آپ کو ان کے شعر کا ایک مصرع بھی معلوم ہے تو یہ کتاب آپ کو اس کے دوسرے مصرعے، مولانا ظفر علی خان کی اس نظم، اس کتاب اور اس صفحہ تک پہنچا دے گی جہاں آپ پورا شعر بلکہ وہ پوری نظم دیکھ سکتے ہیں۔پھر یہ اشاریہ، کلام ظفر علی خان کی کسی ایک اشاعت تک محدود نہیں بلکہ ان کے کلام کے اب تک جتنے مجموعے شائع ہوئے ہیں یہ اشاریہ ان سب کا احاطہ کرتا ہے۔صرف یہی نہیں کلام ظفر علی خان کے تمام مجموعوں کی تاریخ اور ان میں ہونے والی تبدیلیوں پر ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے جو قابل داد تحقیق کی ہے وہ ان جیسا کوئی محقق ہی انجام دے سکتا تھا ۔
اسی پس منظر میں پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ظفر علی خان، غالب سے مستفید اور ان کے ایک مداح ہیں۔ ان کے کلام کی اہمیت شاعری کے نقطۂ نظر ہی سے نہیں ہماری ملی تاریخ اور قومی جدوجہد کے نقطہ نظر سے بھی ہے۔ راقم مدت العمر سے ان کے آثار و افکار پر کام کرتا رہا ہے۔ ان کے کلام کے مجموعوں سے تعارف اور ان کے کلام تک قارئین کی رسائی کو ممکن بنانے کیلئے ایک منصوبہ شروع کیا اس کے تسلسل میں پیش نظر تحریر کے ذریعے مولانا کے شعری مجموعوں سے متعلق کچھ ایسی تفصیلات فراہم کی ہیں جو پہلے قارئین کے سامنے نہیں آئی تھیں۔
مولانا ظفر علی خان کا پہلا باقاعدہ شعری مجموعہ ’’حبسیات‘‘ ہے۔ اس سے پہلے ان کے زمانہ قیام حیدر آباد دکن میں ان کی طویل نظم ’’شور محشر‘‘ کتابچے کی شکل میں شائع ہوئی تھی۔ یہ نظم موسیٰ ندی میں طغیانی کے المناک حادثے پر لکھی گئی تھی اور بڑی تعداد میں شائع کرکے تقسیم کی گئی اور اس کی آمدنی طغیانی کے متاثرین کیلئے وقف کردی گئی تھی۔ یہ 1908ء کا واقعہ ہے۔ اصغر حسین خان نظیر لدھیانوی مرحوم نے یہ نظم بہارستان کی تیسری اشاعت مکتبہ کارواں لاہور میں درج کرتے ہوئے اس پر نوٹ لکھا تھا۔نظیر صاحب کے منقولہ متن میں یہ نظم محض چونیتس اشعار پر مشتمل ہے۔ مولانا ظفر علی خان کے سوانح نگار ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کے مطابق اس نظم کے اشعار کی تعداد ایک سو تھی، حقیقت یہ ہے کہ ایک سو اشعار صرف پہلے چھ بندوں کے تھے جنہیں شیخ عبدالقادر نے’’ مخزن ‘‘میں شائع کیا۔پوری نظم اب دستیاب نہیں ہے۔
اس کے بعد مولانا کا کوئی شعری مجموعہ شائع نہ ہوا تھا۔ وہ بارہا گرفتار بھی ہوئے، اس زمانہ اسارت میں انہوں نے متعدد علمی و ادبی مضامین لکھے ان کا مجموعہ1925ء میں ’’ لطائف الادب‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ سورہ روم کی تاریخ تفسیر قلمبند کی جو بعد ازاں غلبہ روم کے نام سے اشاعت پذیر ہوئی۔ ان نثری کاموں کے علاوہ اس زمانہ اسارت میں ان کا شعری سفر بھی جاری رہا جس کا ثمر ان کے اولین شعری مجموعے’’ حبسیات‘‘ کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ مجموعہ 8/20x26سائز پر منصوبہ اسٹیم پریس لاہور سے میں چھپ کر شائع ہوا۔ مجموعے کے سرورق کی عبارت مظہر ہے کہ اس مجموعے کی نظمیں سنٹرل جیل منٹگمری کے زمانہ اسارت کی یادگار ہیں ۔ سرورق پر لکھا ہے:’’حبسیات یعنی مولانا ظفر علی خان مدظلہ العالی کی ان نظموں کا مجموعہ جو انہوں نے زمانہ قید فرنگ میں سنٹرل جیل منٹگمری میں ارشاد فرمائیں‘‘۔بہ حیثیت مجموعی یہ بات درست ہے کہ اس مجموعے میں شامل بیشتر نظمیں سنٹرل جیل منٹگمری کے زمانہ اسارت میں کہی گئیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ تمام منظومات اسی جیل میں کہی گئیں۔ اس مجموعے میں سنٹرل جیل لاہور اور کرم آباد میں نظر بندی کے زمانے کی نظمیں بھی شامل ہیں۔
قصہ مختصریہ ایک جامع اور مفید دستاویز ہے جس کا مطالعہ تاریخ و ادب کے طلبہ ہی نہیں ہر پاکستانی کے لئے ضروری ہے۔
Frequently Bought Together
BUY MORE TO SAVE MORE
Custom Collections
Latest collection of Books on Urdu Novels, stories, poetry, essays, literature, Islamic, etc.