Rs.600.00Rs.900.00

روشنی کا سفر منجانب میاں زاہد اسلام انجم   شیر خدا حضرت علی کا فرمان ہے : میں نے اپنے رب کو پہچانا اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے مولا کا یہ قول میرے یقین کا...

روشنی کا سفر منجانب میاں زاہد اسلام انجم

 

شیر خدا حضرت علی کا فرمان ہے : میں نے اپنے رب کو پہچانا اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے مولا کا یہ قول میرے یقین کا حصہ ہے۔ جب بھی راہ حیات میں کسی اہم سنگ میل کے قریب پہنچا، کچھ ایسا ہوا کہ ہاتھ آیا مقام دور ہو گیا ، کامیابی ناکامی میں بدل گئی اور عزم و یقین کی جگہ مایوی اور بے بسی نے لے لی تو اپنی کم مائیگی کا احساس شدت سے جاگا۔ ہر بار یہ احساس بھی مزید پختہ ہوا کہ کوئی ہے رب کی چاہت کچھ اور ہے اور اس کی چاہت ہی میری تقدیر ہے۔ اس لیے اس کی چاہت میری تسلیم ورضا بھی ہونی چاہیے ۔ یہی سوچ اور یہی فکر میرے صبر کی بنیاد بی اور اس بنیاد پر زندگی کا سفر کٹ رہا ہے۔ زندگی ! تجربات کا دوسرا نام ، اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز ، نا کامی اور کامیابی ، خوشی اور و تم ، راہ زیست کے پھول اور کانٹے۔ اسے گزار نے والے کچھ حوادث زمانہ کی بھینٹ چڑھ کر راہ میں ہی گم ہو جاتے ہیں تو کچھ زمانے کی ٹھوکریں کھا کر بھی ہمت نہیں ہارتے اور آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں میری یہ کتاب ایسے ہی کچھ تلخ وشیریں تجربات کا نچوڑ ہے۔ بقول ساحر لدھیانوی دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں میں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بہت مشکل حالات میں کیا۔ زمانے کے ستم سہے، نا کردہ گناہوں کی سزائیں بھگتیں مختلف قسم کے لوگ ملے، کچھ سے مل کر امید جاگی تو کچھ کومل کر دوبارہ نہ ملنے کا فیصلہ کیا، اس کٹھن سفر کے دوران میں نے خود سے کچھ بت بھی تراشے، جن سے کبھی ملا تو کبھی انھوں نے میراکشکول خالی ہی لوٹا دیا۔ زمانے کے سرد و گرم حالات سے آشنا ہوتا ہوا آج الحمد اللہ ایک بڑے کاروباری گروپ کو لیڈ کر رہا ہوں۔ بھی واضح کردوں کہ میں کوئی لکھاری ہوں نہ کوئی مصنف یا کالم نگار، سماج کا ایک عام فرد ہونے کی حیثیت سے جدو جہد حیات کے سفر میں جو کچھ خود پر بیتا، جو کچھ سکھا اور جودیکھا اس سب کا نچوڑ کچے پکے یک لفظوں اور بے ترتیب سطروں کی صورت میں ڈائری کا حصہ بناتا رہا۔ چند مہربان دوستوں نے مجھ سے ان ناپختہ تحریروں کو جمع کر کے کتابی صورت دینے کے لیے یہ قدم اٹھوایا۔ البتہ میری یہ کتاب در حقیقت میری زندگی کے ان تجربات کا نچوڑ ہے، جو میری عملی اور کاروباری کامیابیوں کا سبب بنے۔ زندگی کے معنی کیا ہیں؟ مقصدیت کیا ہے؟ کامیابی کی کلید اور ناکامی کے اسباب کیا ہیں ؟ جدو جہد کی ابتدا و انتہا کیا ہے؟ اس دنیا میں سکون اور اطمینان سے آشنائی کیسے ہو سکتی ہے؟ اس کتاب میں ایسے ہر ایک سوال کا جواب بھی ہے اور نئے سوالات کی بنیاد بھی ۔ کیوں کہ سوال ہی نئے امکانات کو پیدا کرتے ہیں۔ ہمارا سوال ہی ہمیں امید کی نئی راہوں سے آشنا اور روشنی کے سفر پر گام زن کرتا ہے۔

 

قارئین کرام!

 

بطور کمپنی چیئرمین مجھے ہزاروں لوگوں کے جاب انٹرویوز کرنے کا اتفاق ہوا، نوجوان ڈگریاں تو لے لیتے ہیں مگر ان کے اہداف واضح نہیں ہوتے۔ عموماً انھیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ انھوں نے کرنا کیا ہے ۔ بڑی تعداد معمولی نوکری کرنے سے ہچکچاتی ہے اور یوں وہ اپنے عملی سفر کے آغاز میں دیر کر دیتی ہے ۔ اس کی وجوہات میں سب سے اہم نو آموزوں کے ذہنوں میں گردش کرتا یہ سوال ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ میرا ماننا یہ ہے کہ کوئی کام چھوٹا نہیں ہوتا ، ہر معمولی نوکری ایک بڑے ہدف کے حصول کی بنیاد بنتی ہے۔ اس لیے اپنی انا کو مار کر لوگوں کی کڑوی کسیلی باتوں کی پروا کیے بغیر صرف کام کریں اگر آپ لوگوں کے رد عمل کا سوچیں گے اور اپنے معیار کی فکر میں الجھیں گے تو فضولیات کا شکار ہو جائیں گے جب کہ حالات کی تلخی کو برداشت کریں گے تو زمانے کی بھٹی آپ کو کندن بنا کر چھوڑے گی۔حضرت واصف علی واصف نے فرمایا تھا بیدار کر دینے والا ثم ، غافل کر دینے والی خوشی سے بہ درجہ ہا بہتر ہے ۔

 

چناں چہ نا کامیوں کو بھی نیمت جانیں ، مایوس نہ ہوں ، آگے بڑھنے کی دھن سر پر سوار رکھیں فیض احمد فیض نے بھی ہماری ڈھارس بندھانے کو ہی کہا تھا: دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے یاد رکھیں ! وقت پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا۔ کام یاب وہی ہوتا ہے جو نا کامیوں سے سیکھ کر آگے بڑھتا ہے۔ ملک کے مخصوص سیاسی اور معاشی حالات اگر چہ نو جوانوں کی مایوسی کی بڑی وجہ ہیں۔ نوجوان جب بھی حالات سے مایوس ہوں انھیں بانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح کی جہد مسلسل کو پڑھ لینا چاہیے۔ آپ نے تو کل خدا اور محض اپنی قوت ارادی سے تاریخ کے دھارے کا رخ تبدیل کردیا۔ آپ کے حیات بخش افکار نہ صرف جد و جہد آزادی کے مختلف جاں گسل مراحل کے عکاس ہیں بلکہ پاکستان کے باشندوں کی ترقی و خوش حالی کے وسیع امکانات کا زاد سفر بھی ہیں۔ حالات جو بھی ہوں اگر آپ کے دل میں امید کاد یا روشن ہے تو ان شا اللہ ملک کے جیسے بھی ہوں حالات بدلیں گے اور آپ کی تقدیر بھی ۔ اگر زندگی میں ناکامیوں کی شرح زیادہ ہے تو بھی دل نہیں ہارنا، اپنے ناکام تجربات کو زاد راہ سمجھ کر آگے بڑھنا ہے۔ عربی مقولہ ہے! - من قرع بابا و لج و لج جو شخص دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور کوشش کرتا ہے وہ داخل ہو ہی جاتا ہے۔ جو انسان وقت کا صیح استعمال کرتا ہے اور درست سمت میں استقامت کے ساتھ سفر جاری رکھتا ہے وہ منزل مقصود تک پہنچ ہی جاتا ہے ۔ سورۃ النجم آیت 39 میں ارشاد باری تعالی بھی ہے،

 

Translation missing: en.general.search.loading